عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ھوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ھے شھر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ھم بھی مگر پیرھن رفو کر کے
مسافت شب ھجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ھوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
جلوس اھل وفا کس کے در پہ پہنچا ھے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ھماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ھے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
میں شرمسار ھوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ھے شھر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ھم بھی مگر پیرھن رفو کر کے
مسافت شب ھجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ھوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
جلوس اھل وفا کس کے در پہ پہنچا ھے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ھماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ھے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
No comments:
Post a Comment